اسلام آباد(سہ پہر) آئینی عدالتیں وقت کی ضرورت کیوں؟
……..(اصغر علی مبارک)۔
پاکستان کو دیگر ممالک کی طرح آئینی عدالتوں کی ضرورت ہے,کیا سپریم کورٹ کی موجودگی میں ہمیں کسی آئینی عدالت کی ضرورت ہے,جی ضرورت ہے بلکہ آئینی عدالت کی شدید ضرورت ہےسپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ہزار وں میں ہے پاکستان میں مقدمات میں التوا کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ آئینی معاملات ہیں جنہیں غیر معمولی اہتمام سے سنا جاتا ہے۔ فوری سماعت ہو جاتی ہے۔ چھٹی والے دن عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ رات گئے پیٹیشنز قبول کر لی جاتی ہیں مقدمے کی کارروائی براہ راست نشر ہوتی ہے جہاں فریقین داد شجاعت دیتے ہیں۔ ٹکر چلتے ہیں، تجزیے ہوتے ہیں، ایسا سماں بندھ جاتا ہے کہ سب کی تسکین ہو جاتی ہے معمولی سے سیاسی آئینی مقدمات، پوری قوم کو اذیت سے دوچار کر چکے ہیں۔ پورا نظام انصاف ان مقدمات کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے۔ ساری توجہ اور سارا وقت تو یہ مقدمات کھا جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے مطابق: آئینی مقدمات کی تعداد 15 فیصد ہے اور یہ سپریم کورٹ کا 90 فیصد وقت کھا گئے۔ یہ 15 فیصد مقدمات سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہ ہوتے اور اس کا 90 فیصد وقت ان پر صرف نہ ہوا ہوتا تو کیا زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہوتی؟ اگر 60 ہزار سے زیادہ مقدمات التوا میں پڑے ہوں اور سپریم کورٹ اپنا 90 فیصد وقت صرف چند آئینی مقدمات میں صرف کر رہی ہو تو فوری طور پر سپریم کورٹ سے یہ آئینی مقدمات لے کر کسی اور عدالت کو دے دیے جائیں تا کہ سپریم کورٹ اپنے 60 ہزار سے زائد مقدمات نبٹا سکے اور لوگوں کو انصاف مل سکے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پاس 85 فیصد مقدمات کے لیے صرف 10 فیصد وقت ہو اور 15 فیصد آئینی مقدمات پر 90 فیصد وقت صرف ہو جائے؟ مقدمہ جب آئینی عدالت کے سامنے پیش ہو گا تو پھر مرضی کا بنچ بنا کر آئین کو ری رائٹ کرنے کا خطرہ کم ہو جائے گا اور افسانوی شہرت والے تین رکنی بنچوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گاوفاق مضبوط ہو گا اور آئینی مقدمات کا فیصلہ تمام صوبوں کے جج کر رہے ہوں گے مختلف بنچوں کی بجائے ایک ہی عدالت سے فیصلے آئیں گے تو آئینی تشریح کے نام سے پیدا ہونے والی الجھن کا خاتمہ ہو گا۔ آئینی عدالت کے پاس چونکہ دوسرے کیس نہیں ہوں گے تو اس خطرے کا خاتمہ ہو جائے گا کہ آئینی کیس کی بنیاد پر کسی فریق کو کسی دوسرے مقدمے میں دباؤ میں لایا جائے۔آئینی معاملات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی کارکردگی بھی کوئی قابل تعریف نہیں ہے۔ ملک میں نظریہ ضرورت کی بلا اسی سپریم کورٹ نے اتاری ہے۔ مارشل لاؤں کو جواز یہی سپریم کورٹ دیتی رہی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی اسی سپریم کورٹ نے دیا۔ اب اگر اس سے آئینی معاملات لے لیے جائیں تو یہ کوئی ایسی ناقابل فہم بات نہیں ہےآئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے بات یہ ہےکہ اس کے ججوں کے تعین کو صرف حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اس کا کوئی شفاف طریقہ وضع ہو جہاں مختلف چیمبروں کی اجارہ داری بھی نہ ہو اور جج اس طرح نہ چنے جائیں جیسے اب چنے جاتے ہیں۔ چونکہ آئین اسلامی ہے اس لیے آئینی عدالت میں عالم جج کا ہونا ضروری ہے۔ آئین ایک سنجیدہ چیز ہے اسے محض وکلا اور ججوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ آئین میں ترمیم کےحقیقی مسودے کو پڑھے بغیر ایک بھیڑ چال شروع ہے جو کہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے آئینی ترمیم کے مسودے کو پڑھے لکھے افراد نہیں سمجھ توسکےایک عام آدمی کیسے سمجھ سکتا ہے
حقیقی مسودہ بار کونسلز کے منتخب عہدیداروں کے پاس ہے ان کا فرض ہے کہ وہ قومی زبان میں اس کا ترجمہ کریں تاکہ عام آدمی قانونی مفہوم کو سمجھ سکے
حکومتی قانونی ٹیم نے صورت حال کو غلط طریقے سے سنبھالا اور اب عوام اور وکلاء احتجاج پر ہیں ان کے پاس اصل مسودہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس پر بحث کر رہے ہیں جو کہ سوشل میڈیا پر موجود ہے
اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نےبھی یہ کہا ہےکہ انہوں نے مسودہ نہیں دیکھا تو پھر وہ آئین میں ترمیم کےحقیقی مسودے پر بحث کیسے کر سکتے ہیں؟
پاکستان کا آئین ایک مکمل آئین ہے اس میں کسی طرح کی آئینی عدالت کی کوئی گنجائش نہیں ۔سپریم کورٹ جیسے کہ اس کے نام سے ظاہر ہے آخری عدالت کے طور کام کرتی ہے ۔آپ کوئی بھی کورٹ بنا لیں وہ سپریم کورٹ سے سپریم نہیں ہو سکتی ۔سپریم کورٹ تو وہ کورٹ ہے جو آئین کی روح کے منافی اگر قومی اسمبلی بھی کوئی قانون سازی کرنے لگے تو اسے بھی روک سکتی ہے۔آئین دراصل بنیادی حقوق ،سیاسی عمل اور قانون سازی پر مشتمل ہوتا ہےآئین کے نفاذ کے عمل میں پیدا ہونے والے مسائل پر غور و فکرکرنے کا کام آئینی عدالتیں کرتی ہیں ۔جنہیں دنیا میں ‘آئینی ٹریبونل یا ‘آئینی کونسل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خود مختار ادارہ قانون سازی کا دفاع اور نظر ثانی کرتا ہے اور اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے مگر کسی اختلاف کی صورت میں اس کے کسی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔اس قسم کی عدالتیں دنیا کے تقریباً 85ممالک میں ہیں۔ اس کا آغاز آسٹریا سے ہوا۔یہ آئینی عدالتیں آئین سازی یا آئینی اصلاحات کی بہتری کیلئے وجود میں لائی گئیں اور یہ پارلیمنٹ کا ہی ایک حصہ ہوتی ہیں ۔کسی حد تک یہ قومی اسمبلی کی اُس آئینی کمیٹی جیسی ہوتی ہیں جو قانون سازی سے پہلے جائزہ لیتی ہے کہ یہ بل اسمبلی میں پیش کرنے کے قابل ہے یا نہیں ۔ آئینی عدالت کے قیام کا بنیادی محرک ایک مضبوط اور خصوصی عدالت ہے جو نظرثانی بھی کرے اور اس کا نفاذ بھی ۔ آئینی عدالتوں کے چار کام ہوتے ہیں ۔ آئین کا مسودہ تیار کرنے کا دائرہ اختیار یعنی آئین سازی کے عمل میں پیدا ہونے والے مسائل کا فیصلہ کرنا اور آئینی ترامیم کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا کہ یہ ترامیم ہو سکتی ہیں یا نہیں ۔ قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا اور سیاسی جماعتوں اور انتخابات کو کنٹرول کرنا، یعنی وہ کام جو الیکشن کمیشن کرتا ہے ۔یہ ممکن نہیں کہ الیکشن کمیشن بھی ہو اور آئینی عدالت یا آئینی ٹربیول بھی ہو۔اگر ہم دونوں برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے اختیار الیکشن کمیشن سے آئینی عدالت کو دینے پڑیں گے ۔
سیاسی پارٹیوں کے حامی وکلاء کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی , وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ مجوزہ قانون سازی وسیع ترعوامی مفاد میں کی جارہی ہےآئینی ترمیم کا مقصد تیز اور سستے انصاف کی فراہمی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ ’یہ تاثرغلط ہے کہ ترمیم کسی خاص شخصیت کے لیے ہے۔‘وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت جوڈیشل ریفارمز سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش کرنا چاہتی ہے وزیر قانون کے بقول ایسا اقدام عدلیہ میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ زیر التوا مقدمات فوری نمٹانے اور اعلی عدلیہ میں چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کی تعیناتی کا پیکج بھی شامل ہیں۔
تاحال سرکاری سطح پر ان ترامیم کا مسودہ جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم حکومتی ذرائع کی جانب سے آئینی ترمیمی بِل کا مسودہ شیئر کیا گیا ہے جس میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل کی گئی ہیں۔ اس بِل میں آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی تجویر دی گئی جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف کسی بھی قانون سازی یا بِل پر ووٹ دینے والے رُکن پارلیمان کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے باوجود مجوزہ وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق عدالت عظمیٰ کے ایک سابقہ فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ 17 مئی 2022 کو دیے گئے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ کسی بھی جماعت کے منحرف رُکن یا اراکین اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہو گا جبکہ ایسے رُکن کی نااہلی کی معیاد کا تعین پارلیمان کرے گی۔ تاہم سامنے آنے والے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی اِس تشریح کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے اور اب اس کا مطلب یہ ہو گا کہ منحرف رُکن اسمبلی کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد وہ چار معاملات جن میں منحرف رُکن یا اراکین کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار کیا جا سکے گا اُن میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ، آئینی ترمیم پر ہونے والی ووٹنگ اور بجٹ پر ہونے والی ووٹنگ شامل ہے۔یہ فیصلہ حکومت کے لیے ایک بڑے ریلیف ہے اب بظاہر حکومت اِس پوزیشن میں آ گئی ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ آئینی ترامیم بشمول آئینی عدالت کے قیام جیسی ترامیم کو پارلیمان سے منظور کروا پائے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینٹ میں قائد ایوان سنیٹرعرفان صدیقی نے آئینی ترامیم کے حوالے سے ملک میں پائی جانے والی ہیجانی کیفیت کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترامیم پر پائی جانے والی بے چینی صرف اخبارات ، ٹیلی ویژن ، اشرافیہ اور اس سے متاثرہونے والوں میں پائی جاتی ہے یہ کیفیت پارلیمنٹ میں ، حکومتی ایوانوں میں تو ہوسکتی ہے تاہم عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں سینیٹرعرفان صدیقی نے آئینی ترامیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس کے پیچھے سیاست کارفرما ہے اگر میرٹ پر بات ہو تو ضرور کی جائے اس وقت دنیا کے 85ملکوں میں آئینی عدالتیں کام کررہی ہیں آسٹریا میں آئینی عدالت کو اپنا کام کرتے ہوئے 105سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے 2006 میں میثاق جمہوریت کیا جو ایک مکمل آئینی اصطلاحات کا پیکیج تھا میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اس چارٹر پر دستخط کئے بعد میں مولانا فضل الرحمان نے اس معاہدے کی توثیق کی اس لحاظ سے یہ متفقہ دستاویز ہے اس میثاق کو 18سال ہوگئے ہیں ہم اٹھارہ سال لیٹ ہیں اب آکر اس آئینی ترامیم میں جو تحفظات سامنے آرہے ہیں کہ ہم کسی کی عمر کم یا زیادہ کررہے ہیں انہوں نے اس امر کی سختی سے نفی کی کہ ہم نے اس آئینی ترامیم میں کوئی ایسی شق شامل نہیں کی ہے جس سے کسی بھی عہدے کی آئینی مدت میں اضافہ ہو جائے اسو قت سپریم کورٹ میں 60ہزار سے زیادہ مقدمات زیر التواء ہیں جن آئینی نوعیت کے بہت کم مقدمات ہیں تاہم عدالت عظمیٰ کا زیادہ وقت انہی مقدمات میں لگ جاتا ہے جس کے باعث عدالت کو سائلین کے مقدمات سننے کا وقت ہی نہیں مل رہامجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل ہیں تاہم بل میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں البتہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے گا۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، آئین کی63،51،175،187، اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافےکی ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھاکر 81 کرنےکی تجویز شامل کی گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل63 میں ترمیم کی جائیں گی، منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائےگی۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانےکا امکان ہے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائےگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جاسکےگا۔ چیف جسٹس پاکستان کا تقرر سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس لگائےگی پاکستان کے 1973 کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ۔
اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ ان نمبروں کو پورا کرنے کے لیے حکمراں اتحاد جمعت علمائے اسلام کے سربراہ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کے پاس قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینیٹ میں پانچ ارکان ہیں۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ نے 17 مئی 2022 کو سابق صدر عارف علوی کی جانب سے دائر کرہ ایک صدارتی ریفرنس پر 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے فیصلہ سُنایا تھا۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، سپریم کورٹ سے مستعفی ہونے والے سابق جج جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اپنے اُس اکثریتی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ منحرف رکنِ پارلیمان کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے۔ جبکہ اُس پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ اختلاف کرنے والے دونوں ججوں نے قرار دیا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح ’آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہو گی۔اس فیصلے کا بظاہر ایک مطلب یہ ہے کہ اب موجودہ حکومت مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے اُن ارکین اسمبلی کی حمایت حاصل کر پائے گی جو اسمبلی میں تو موجود ہیں تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے اُن کا تحریک انصاف کا کامیاب امیدوار ہونے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو پایا۔یاد رہے کہ دو ہفتے قبل حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم پارلیمان میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی تاہم مبینہ طور پر ان ترامیم کو پاس کروانے کے لیے درکار عددی اکثریت نہ ہونے کے باعث اس معاملے کو مؤخر کرنا پڑا تھا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلہ دیا تھا کہ چونکہ قومی اسمبلی میں موجود آزاد اراکین کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اس لیے یہ مخصوص نتشتیں پی ٹی آئی کو دینے کے ساتھ ساتھ جو آزاد امیدوار ہیں اُن کو پاکستان تحریک انصاف کا ہی رُکن تسلیم کیا جائے۔ اس عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے 41 امیدواروں کو پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار کے طور پر تو نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا تاہم اُن 39 ارکان قومی اسمبلی کا نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں کیا جو آزاد حیثیت میں کامیاب قرار پائے اور جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔ب حکومت کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے ایسے آزاد اراکین کی حمایت حاصل کر کے عددی اکثریت کے معاملے کو حل کر سکتی ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بظاہر لگتا ہے کہ حکومت کے ہاتھ کُھل گئے ہیں اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ حکومت کو آئینی ترامیم کے لیے اب جمعیت علمائے اسلام کی بھی حمایت کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہے گی۔جمعرات کو سامنے آنے والے فیصلے کے بعد اب جمعت علمائے اسلام کی قیادت بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ جمعت علمائے اسلام 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دے گی ۔ سابق چیف جسٹس نے اپنے اس عدالتی فیصلے میں وہ باتیں بھی شامل کیں جو کہ آئین میں کہیں درج نہیں تھیں اور اسی لیے ان کے ساتھ بینچ میں شامل دو ججوں نے اسے آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش قرار دیا تھا۔یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ حکومت آئندہ آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر کے آئینی ترمیم کو ایوان میں پیش کرے کیونکہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ وہ 25 اکتوبر سے پہلے اس ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کروا لیں تاکہ آئینی عدالت کو بھی تشکیل دیا جا سکے پاکستان مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر سپریم کورٹ نے آئین کو دوبارہ لکھنے کے عمل کو غلط قرار دیا۔ مسلم لیگ کے سینیئر نائب صدر حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ سابقہ فیصلے کو بنیاد بنا کر پنجاب میں منتخب حکومت کو گرایا گیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے موجودہ صورتحال میں پارلیمانی اور آئینی اداروں کی غیرمعمولی فعالیت کے پیش نظر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو تیز کردیا ، ان سرگرمیوں اور ملاقاتوں کا مقصد چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پروفاقی آئینی عدالت کے قیام کیلئے 26ویں آئینی ترامیم پر مشاورت کرنا ،سیاسی جماعتوں کو آئینی عدالت کے قیام کے معاملے پرآن بورڈ لینا شامل ہیں,واضح رہے کہ سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی آئینی عدالت بنا کر میثاق جمہوریت مکمل کرنا چاہتی ہے، پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے تمام سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے ضروری ہے