اسلام آباد(سہ پہر) آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت
(.. اصغر علی مبارک…)
آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔ملک کو اس وقت سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے استحکام، جس کیلئے ریاست نے ’’عزم استحکام‘‘ کے نام سے ایک لائحہ عمل تشکیل دیا ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کیلئے ’’ عزم استحکام‘‘ کا اعلان تو کر دیا گیا مگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس کی بھرپور مخالفت جا رہی ہے۔ ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں دہشتگردی پھر بڑھے گی۔
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے شدت پسندوں کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پرحزب اختلاف کی جماعتوں سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں دہشتگردی ایک بار پھر بڑھے گی اور حال ہی میں اعلان کردہ آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔اپوزیشن کی پریشانی حیران کن ہے جبکہ ایسا پہلی بار نہیں کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان میں آپریشن کا آغاز کیا گیا ہو۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی بڑے اور چھوٹے آپریشنز ملک میں جاری رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بڑے فوجی آپریشنز سابق فاٹا کے مختلف علاقوں میں کیے گئے۔
آپریشن عزم استحکام کا اصل ہدف دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے جو تب تک نہیں ختم ہو سکتی جب تک اسے فنانس کرنے والے دھندے نہیں بند ہوتے۔ دہشتگردوں کا ڈائریکٹ تعلق اربوں روپے کمانے والے ڈیزل سمگلرز، منشیات فروش، ڈالر مافیا، افغانستان اور ایران سے اشیاء خورد و نوش اور دیگر چیزوں کی سمگلنگ کرنے والوں کے ساتھ ہے۔یہی لوگ ملک کو سافٹ سٹیٹ رکھنا چاہتے جو دہشتگردوں کو فنڈنگ بھی کرتے ہیں اور ان کی سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو سیاسی اور سماجی کورخیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان دیتے ہیں۔ 22 جون کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں عسکریت پسندی کے انسداد کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں موجود چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نمائندوں نے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے پر اتفاق کیا مگر چند گھنٹے گزرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اس کی مخالفت میں بیانات داغ دیئے۔جمعیت علمائے اسلام (ف)، اے این پی اور جماعت اسلامی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے، پاکستان تحریک انصاف نے مؤقف اختیار کیا کہ نئے آپریشن سے متعلق پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے، اپیکس کمیٹی پارلیمان سے بالاتر نہیں ، پہلے کی طرح عسکری قیادت پارلیمان کو بریفنگ دے، حکومت نے اس کے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے تو اپیکس کمیٹی اجلاس میں آپریشن کی تائید کی، پی ٹی آئی اس کی مخالفت کیسے کر رہی ہے؟تاہم علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا کہ اپیکس کمیٹی اجلاس میں تو آپریشن کی بات ہی نہیں ہوئی صرف’’ عزم استحکام ‘‘کی بات ہوئی کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہئے، وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے اعتراض کے جواب میں کہا کہ ملک میں کوئی بڑ ا آپریشن نہیں ہو رہا ، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے انٹیلی جنس بنیاد پر جاری کارروائیوں کو مزید متحرک کیا جائے گا۔اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات اپنی جگہ مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے سیاسی اتفاقِ رائے اور قومی یگانگت کی اشد ضرورت ہے، سکیورٹی فورسز روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں اور کرتی رہیں گی مگر اس عفریت کو شکست دینے کیلئے سیاسی نظریات اور مفادات سے بالاتر ہو کر ایک قوم بن کر اکٹھا ہونے کی اشد ضرورت ہے، یہی عزم استحکام ہے۔وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ عزم استحکام کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ’’ راہِ نجات‘‘ اور ’’ضرب ِعزب‘‘ جیسے آپریشنز سے کیا جا رہا ہے ، یہ بحث ختم ہونی چاہیے، عزم استحکام بنیادی طور پر کوئی نیا آپریشن نہیں بلکہ ملک بھر میں پہلے سے جاری سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کا تسلسل ہے، مگر اس میں ہول آف دی نیشن اپروچ کو شامل کیا گیا ہے یعنی ان جاری آپریشنز کو سیاسی قیادت کی سپورٹ دینا اور پوری قوم کو اس کا حصہ بنانا ہے، کیونکہ جہاں سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے نبرد آزما ہیں وہیں اس جنگ میں کامیابی کیلئے پوری قوم یکجا ہو اور اپنی فورسز کے پیچھے کھڑی ہو۔اس حکمت عملی میں دہشت گردوں کی سرحد پار آماجگاہوں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے، عز م استحکام میں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے زمینی آپریشن کے ساتھ ساتھ سکیورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھانا بھی شامل ہے تاکہ سکیورٹی فورسز جدید دور کے چیلنجز سے نمٹ سکیں، راہ راست ، راہ نجات یا ضرب عضب کی طرح یہ آپریشن کسی مخصوص صوبے یا علاقے تک نہیں بلکہ ملک بھر میں پہلے سے جاری آپریشنز کا حصہ ہے۔اس وقت ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں جن میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہے ہیں، دونوں صوبوں میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر روزانہ کی بنیاد پر ایک سو سے زائد آپریشن جاری ہیں،نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن کی کامیابی کیلئے ایک مؤثر قانونی سپورٹ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا تاکہ ملک کا عدالتی نظام دہشت گردوں کی سرکوبی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔
آپریشن کا آغاز پارلیمانی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا جائے گا۔ماضی کے کئی فوجی سربراہوں کے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کی طرح اب جنرل عاصم منیر نے اپنا سٹیمپڈ آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق بہتر ہوتا کہ وفاقی کابینہ، اتحادیوں اور پارلیمان کو اعتماد میں لینے کے بعد اس تازہ کارروائی کا اعلان کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اچانک اعلان نے خدشات پیدا کیے۔اس کارروائی میں حکومت نے عدلیہ سے بھی مدد مانگی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کے خلاف کارروائی کریں اور ان کو عدالت سے ریلیف ملنا شروع ہوجائے۔ تازہ اعلان سے بظاہر آٹھ سال سے گرمی نرمی کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے مقصد سے جاری قومی ایکشن پلان میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔ اس کے ذریعے شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کو واضح پیغام بھی دینا ہے کہ پاکستان کمزور نہیں اور ان کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔عزم استحکام کا مقصد انتہاپسندی کا خاتمہ ہے 25 جون 2024 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عزم استحکام آپریشن ایک کثیر جہتی، مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے اور اس کا مقصد شدت پسندوں کی باقیات، جرائم و عسکریت پسندوں کے گٹھ جوڑ اور ملک میں انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ عزم استحکام آپریشن ایک کثیر جہتی، مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے اور اس کا مقصد شدت پسندوں کی باقیات، جرائم و عسکریت پسندوں کے گٹھ جوڑ اور ملک میں انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عزم استحکام کے تحت کسی نئے و منظم مسلح آپریشن کے بجائے پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کو مزید تیز کیا جائے گا۔انہوں نے وضاحت کی کہ ’ بڑے پیمانے پر مسلح آپریشن جس کے نتیجے میں نقل مکانی کی ضرورت ہو، وژن عزم استحکام کے تحت ایسے کسی آپریشن کی شروعات محض غلط فہمی ہے۔ عزم استحکام کا مقصد دہشت گردوں کی باقیات، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ اور ملک میں پر تشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔عزم استحکام پاکستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ایک کثیر جہتی، مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے۔اس کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان، جو کہ سیاسی میدان میں قومی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا گیا تھا، کے جاری نفاذ میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ’ہم سب کو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے اس مثبت اقدام کی پزیرائی کرتے ہوئے تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے