LOADING

Type to search

تازہ ترین

اسلام آباد(صغیر چوہدری-سہ پہر ) فرینکفرٹ واقعہ ناقابل معافی ہے اب پاکستان سے افغان شہریوں کا انخلا ناگزیر ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت قومی سلامتی کے اداروں کو ان افغان شرپسند عناصر کے خلاف سخت اور بے رحم پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔

اسلام آباد(صغیر چوہدری )
فرینکفرٹ واقعہ ناقابل معافی ہے اب پاکستان سے افغان شہریوں کا انخلا ناگزیر ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت قومی سلامتی کے اداروں کو ان افغان شرپسند عناصر کے خلاف سخت اور بے رحم پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
کیونکہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصلیٹ پر افغان شر پسندوں کا حملہ محض اتفاقیہ نہیں بلکہ پری پلان تھا۔ منظر عام پر آنے والی وڈیو میں شر پسند افغان گینگ نے ایک جتھے کی صورت میں قونصلیٹ کا گھیروا اور پاکستان کے قومی پرچم کی توہین کی۔ اب تک سامنے آنے والے حقائق اور میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانیوں کا یہ حملہ جرمنی کی ناقص سیکیورٹی اور نرمی کا نتیجہ ہے سفارت خانے سے ایمرجنسی پولیس کو اطلاع کے باوجود ایک گھنٹے سے زائد قونصلیٹ کا محاصرہ جاری رہا سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانی شرپسند عناصر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وہاں اکٹھے ہوئے شر پسندوں کا یہ اقدام ناصرف پاکستانی کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ ویانا کنونش 1963 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس کے تحت میزبان حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی سرزمین میں قائم کسی بھی غیر ملکی سفارت خانے کی حفاظت لازمی ہے دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کے رسمی اور روایتی سے بیان پر بھی کروڑوں پاکستانیوں کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جرمن حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہںں کی اور نرم رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے شر پسند عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے جبکہ اس واقعے کے کئی گھنٹے بعد بھی وہاں کا،قانون اس قوت سے حرکت میں نہیں آیا ۔دوسری جانبوڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں افغان نیشنل پاکستانی قونصلیٹ پر دھاوا بول رہے ہیں دیوار پھلانگ کر احاطے کے اندر گھسے اور پھر یہ بھی افسوس ناک منظر دیکھنے کو ملا کہ ان انتہا پسند لوگوں نے پول پر چڑھ کر پاکستانی پرچم کو پہلے کھینچ کر نیچے اتارا ۔ وہ بھی اس انداز میں جیسے کوئی فاتح فوج کرتی ہے پھر اسے پیروں تلے روندا ۔۔ نعرے لگائے آگ لگانے کی کوشش کی اور کافی دیر تک قونصلیٹ کا گھیروا کئے رکھا ۔ لیکن اس تمام تر صورت حال میں وڈیو میں دیکھیں تو صرف ایک سے دو پولیس اہلکار وہاں دکھائی دے رہے ہیں۔۔ یعنی ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کی سالمیت کو شر پسند افراد کی جانب سے حملہ کیا جارہا ہے لیکن جرمن قانون خاموش تماشائی بنا رہا جسکی مثال نہیں ملتی اور انکی وہاں پر جو سیکیورٹی کی صورت حال کو مختصر سی وڈیو نے بے نقاب کردیا اس واقعے کے بعد ایک سوال ذہنوں میں گونج رہا ہے کہ اگر پاکستان میں خدانخواستہ ایسا کچھ ہوجاتا تو کیا پھر بھی جرمن کا بھی یہی ردعمل ہوتا جو اس موقع پر دیکھنے میں آیا ۔۔ یقیناً نہیں ۔۔بلکہ پوری یورپی یونین اکٹھی ہوجاتی ۔ ممکن ہے کہ پاکستان سے سفارتی تعلقات منقطع کردئیے جاتے یا پاکستان پر مختلف پابندیاں لگا دی جاتیں۔۔ لیکن اسکے برعکس پاکستان میں غیر ملکی سفارت خانوں کی سیکورٹی کی اگر بات کی جائے تو وہ بلکل اسکے برعکس نظر آتی ہے ۔ اسلام آباد میں انتہائی ریڈ زون میں ایک وسیع و عریض رقبے پر ڈپلومیٹک انکلیو واقع ہے اسکی سیکیورٹی کے لئے پولیس کی ایک پوری سیکیورٹی ڈویژن تعینات ہے جو اس ڈپلومیٹک انکلیو کے اندر موجود ہے جسے ڈپلومیٹک پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ ڈی۔پی ڈی کہا جاتا ۔ پولیس کا ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) لیول کا افسر اسکا انچارج مقرر ہے۔ اسی طرح ایک ایس ایس پی ۔پھر ایس پی ۔ڈی ایس پیز اور سینکڑوں اہلکار 24 گھنٹے سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور رہتے ہیں اور جہاں بغیر اجازت پرندہ پر نہیں مار سکتا اور پاکستان ان سفارت خانوں کی سیکیورٹی پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے ڈپلومیٹک انکلیو کے چاروں اطراف سے قلعہ نما باؤنڈری وال ہے جس میں داخلے کے لئے تین سے چار انٹری گیٹ مختص ہیں جہاں غیر متعلقہ شخص یا افراد کا داخلہ تو دور کی بات اسکی دیوار کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا جہاں چاروں اطراف پولئس۔ایف سی اور رینجرز کا حصار موجود رہتا ہے رات دن پولئس کی پٹرولنگ اور گشت رہتا ہے ۔۔ اگر کسی بھی سفارت خانے کو کوئی بھی مسئلہ تو سیکنڈز میں اسکو حل کیا جاتا ہے۔۔ اور اسی ڈپلومیٹک انکلیو میں جرمن کا سفارت خانہ بھی موجود ہے جسے ہر قسم کی سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اور پاکستان کے حالات سیکیورٹی کے اعتبار سے جیسے بھی ہیں لیکن ان سفارت خانوں کی سیکورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔۔۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ جب پاکستان ویانا کنونشن 1963 پر اتنا عملدرآمد کرتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے تو پھر جرمنی جیسے ملک میں ایسا واقعہ ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔۔ کیونکہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ بات ہے پاکستان کی ساورنٹی کی۔۔۔ ابھی تک جرمنی کی طرف سے اس واقعے پر کوئی ٹھوس وضاحت بھی سامنے نہئں آسکی ۔ دوسری جانب پاکستانی شہریوں نے وفاقی وزیر داخلہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اپیل کی ہے کہ پاکستان میں رہائش پذیر ان افغانیوں کے حوالے سے بے رحم پالیسی اختیار کی جائے اور جتنی جلدی ممکن ہوسکے انہیں پاکستان سے نکالا جائے جبکہ پاکستانی عوام قومی سلامتی کے اداروں سے بھی یہی اپیل کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے ان شرپسندوں نے ملکی سالمیت پر حملہ کیا ہے اور کاری ضرب لگائی ہے اور یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ لوگ منظم ہوکر آئے تھے انکے ہاتھوں میں جھنڈے بھی نمایاں نظر آرہے ہیں۔ انکو پاکستان میں رہائش اختیار کرنے سے متعلق دی گئی چھوٹ ختم فوری ختم کردینی چاہئیے ۔۔ پاکستان میں یہ لوگ ناصرف جرائم میں ملوث ہیں بلکہ دہشت گرد کاروائیوں میں بھی شامل ہیں انہوں نے پاکستان میں اپنے بڑے بڑے گینگ بنا رکھے ہیں یہ مسلح ہو کر زمینوں پر قبضے بھی کرتے ہیں اور منشیات فروشی کے دھندے میں بھی ملوث ہیں جبکہ اس واقعے پر جرمنی کو سخت میسج جانا چاہئیے ۔